حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (2024)

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (1)

،تصویر کا ذریعہReuters

مضمون کی تفصیل
  • مصنف, اکبر حسین، انبراسن اتھیراجن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اتوار کو بنگلہ دیش بھر سے مظاہرین، پولیس اور عوامی لیگ کے یوتھ ونگ کے درمیان جھڑپوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل تھیں اور ہلاکتوں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔

پولیس اور عوامی لیگ کے یوتھ ونگ کی جانب سے فائر کی گئی گولیوں سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں اور عوام کے غصے کو مزید ابھار رہی تھیں۔

جب جھڑپوں کی شدت واضح ہونے لگی تو طلبہ تحریک کے رہنماؤں نے وہ کیا جس کے لیے حکام تیار نہیں تھے۔ انھوں نے ڈھاکہ کی جانب مارچ کی کال دے دی۔

خفیہ اداروں کی رپورٹس سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ طلبہ کے مطالبات کی لوگوں میں مقبولیت بڑھ رہی ہے اور ہزاروں افراد دارالحکومت کی جانب مارچ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اگر سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تو پیر کا دن انتہائی ہلاکت خیز اور خونیں ثابت ہو گا۔

یہاں آرمی چیف وقار الزمان نے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سے اتوار کی شام کو دوبارہ بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

دوبارہ اس لیے کیونکہ جب شیخ حسینہ نے اتوار کی صبح بنگلہ دیش میں بدامنی اور پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی حکام کو مشاورت کے لیے بلایا تو وہ اس وقت وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں کہ بطور وزیرِ اعظم اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔

اس اجلاس کے کچھ گھنٹے بعد ہی وہ لوگوں کی طاقت کے سامنے بے بس ہو گئیں اور یقیناً ان کی اقتدار سے اس تیزی سے بے دخلی کے بارے میں کم ہی لوگوں نے پیشگوئی کی تھی۔

بی بی سی کو ان کے بیٹے کی جانب سے بتایا گیا کہ آخر میں وہ مانیں بھی تو اپنے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے منانے پر نہ کہ اعلیٰ سکیورٹی افسران کے مشوروں کے باعث۔

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (2)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بہرحال حسینہ صحیح وقت پر یہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہوئیں کیونکہ ان کے اپنی رہائشگاہ سے نکلنے کے کچھ گھنٹے بعد ہی ہجوم ان کے گھر میں گھس چکا تھا۔

نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ جو اتوار کی صبح بلائی گئی تھی، اس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، سینیئر سکیورٹی حکام اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ اس دوران ماحول سنجیدہ تھا۔

لیکن فوج کے اعلیٰ عہدیدار اس حوالے سے ان کے ساتھ ایک پیج پر نہیں تھے۔ اتوار کو بنگلہ دیش کی سڑکوں پر عام لوگ اور مظاہرین فوجی اہلکاروں کے ساتھ گھلتے ملتے دکھائی دیے۔ اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سینیئر فوجی افسران کو احساس ہوا کہ اب حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

بی بی سی کو ذرائع نے بتایا ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسران نے اجلاس کے دوران وزیرِ اعظم کو بتایا کہ فوجی اہلکارعام شہریوں پر فائر نہیں کریں گے لیکن وہ پولیس کو بیک اپ فراہم کر سکتے ہیں۔ سینیئر پولیس چیفس نے بھی شکایت کی کہ ان کے اہلکاروں کے پاس گولیاں ختم ہو چکی ہیں۔

لیکن شیخ حسینہ ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھیں اور کوئی بھی ان کے منھ پر ان کے ساتھ اختلاف نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اجلاس کے بعد پریس سیکریٹری نے ایک جارحانہ بیان جاری کیا۔ انھوں نے مظاہرین کو ’دہشتگرد‘ کہا اور عوام سے ’آتش زنوں‘ کے خلاف مزاحمت کرنے کی درخواست کی۔

لیکن سکیورٹی فورسز کو ڈر تھا کہ بہت جلد معاملات خانہ جنگی میں بدل جائیں گے۔

بی بی سی بنگلہ کو حکام نے بتایا کہ شیخ حسینہ ’دونوں آپشن‘ کھلے رکھنا چاہتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ اگر ’لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ‘ پروگرام کو طاقت سے روکا جا سکتا ہے تو وہ استعفیٰ نہیں دیں گی تاہم اس کوشش کے ناکام ہونے کی صورت میں ملک چھوڑنے کی بھی تیاری کی گئی۔

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (3)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قابلِ بھروسہ ذرائع نے ہمیں بتایا کہ تین سروس چیفس نے اتوار کی شام ان سے دوبارہ ملاقات کی اور انھیں شائستگی سے سمجھایا کہ زمینی صورتحال ہر بدلتے لمحے کے ساتھ سنگین اور جارحانہ ہوتی جا رہی ہے اور ہزاروں افراد کا مجمع پیر کی صبح ڈھاکہ پہنچنے کا امکان ہے۔ انھوں نے یہ بھی باور کروا دیا کہ ہم آپ کی رہائش گاہ کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکتے۔

شیخ حسینہ نے اب بھی ان کے مشورہ پر کان نہیں دھرے لیکن ڈھاکہ میں موجود صحافیوں کے مطابق انھیں ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ طاقت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے۔ اتوار کی رات تک پولیس اکثر اہم جگہوں پر موجود نہیں تھی اور متعدد رکاوٹیں خالی پڑی تھیں۔

ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ایم سخاوت حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ ضد پر اڑی ہوئی تھیں۔ نہ تو وہ استعفیٰ دینا چاہتی تھیں اور نہ ہی ملک چھوڑنا چاہتی تھیں۔ مسلح افواج کے سربراہان آئے اور انھوں نے کوشش کی کہ وہ انھیں سمجھا سکیں کہ اس وقت زمینی صورتحال کیا ہے۔‘

’انھوں نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکاروں کے لیے مجمعے پر فائر کرنا مشکل ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے فوجی اہلکار بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ وہ گاؤں، دیہات کے رہنے والے ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی اپنے ہی لوگوں پر گولی نہیں چلائیں گے۔‘

پیر کی صبح طلوع ہوئی تو لوگوں کی بڑی تعداد ڈھاکہ کی جانب گامزن تھی۔ جنرل زمان اس دوران حسینہ واجد کی رہائش گاہ پر تھے اور انھیں یہ سمجھا رہے تھے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ لوگ کرفیو توڑ کر باہر نکل رہے ہیں اور تشدد کا آغاز ہو چکا ہے۔

پولیس کو ڈھاکہ کے متعدد علاقوں سے ہٹایا جا رہا تھا اور جنرل زمان نے انھیں بتایا کہ وہ ہجوم کو گونوبھابن یعنی وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہونے سے روکنے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ زیادہ سے زیادہ مزید ایک گھنٹے تک ایسا کر سکتے ہیں۔

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (4)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ وہ موقع تھا جب افواج کے سربراہان نے حسینہ واجد کے خاندان کو کال کر کے انھیں اس معاملے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پولیس اور فوجی چیفس نے اس کے بعد شیخ حسینہ کی بہن ریحانہ صدیق سے بات کرنے کا فیصلہ تاکہ وہ اپنی بڑی بہن کو ملک چھوڑنے پر راضی کر سکیں۔

بنگالی زبان کے اخبار پروتھوم آلو کے مطابق ’حکام نے شیخ ریحانہ سے دوسرے کمرے میں مشاورت کی۔ انھوں نے ان سے شیخ حسینہ کو صورتحال سمجھانے کا کہا۔ شیخ ریحانہ نے جب اپنی بڑی بہن کو سمجھایا تو اس وقت تک بھی وہ اقتدار میں موجود رہنے کے لیے پرعزم تھیں۔‘

آخر کار شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب اور بیٹی صائمہ جو بیرونِ ملک مقیم ہیں، نے ان سے فون پر بات کر کے اس بات پر زور دیا کہ انھیں ملک چھوڑ دینا چاہیے۔

اطلاعات کے مطابق خاندان کی آپس میں مشاورت کے دوران آرمی چیف موجود تھے جن کی شادی شیخ حسینہ کے خاندان میں ہوئی تھی۔

شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن اہلخانہ ان کے تحفظ کے بارے میں فکر مند تھے اور اسی لیے گھر والوں نے اصرار کیا کہ انھیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے
  • ’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دی

  • شیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بنا

  • بنگلہ دیش: حسینہ واجد کا استعفیٰ اور آرمی چیف کی پریس کانفرنس، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

یوں جب بالآخر شیخ حسینہ ملک چھوڑنے کا مشورہ مان گئیں تو انھوں نے دہلی میں حکومتی عہدیداروں سے رابطہ کیا اور انھیں وہاں محفوظ مقام فراہم کرنے کی درخواست کی۔ انڈیا، جو شیخ حسینہ کا دہائیوں سے اتحادی رہا ہے، کی جانب سے بھی انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔

ایک روز پہلے اطلاعات کے مطابق واشنگٹن نے بھی انڈین سفارت کاروں کو یہ بات بتا دی تھی کہ اب حسینہ کے اقتدار میں دن گنے جا چکے ہیں اور ان کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔

ریٹائرڈ جنرل حسین نے کہا کہ ’انھوں نے اس وقت استعفیٰ دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ فوج ان کی حمایت نہیں کر رہی۔ پولیس بھی تھک چکی ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ان کے پاس گولیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔ لوگ کرفیو توڑ کر ڈھاکہ پہنچ رہے تھے اور ان کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کر رہے تھے۔‘

ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ صرف سپیشل سکیورٹی فورس، پریذیڈنٹ گارڈ رجمنٹ اور آرمی ہیڈکوارٹر میں کچھ سینیئر فوجی افسران ہی جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے استعفیٰ کے خط پر کب دستخط کیے اور وہ کب ہیلی کاپٹر میں سوار کر ملک سے چلی گئیں۔

ان کے مطابق یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے کیا گیا۔

بی بی سی کو عسکری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شیخ حسینہ پیر کی صبح گیارہ بجے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے روانہ ہوئیں۔ اس وقت ان کی منزل انڈیا کی ریاست تریپورہ میں اگرتلہ تھی۔ وہاں اترنے کے بعد شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ کو انڈین فضائیہ کے خصوصی طیارے سے دارالحکومت دہلی پہنچا دیا گیا۔

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (5)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شیخ حسینہ کے دہلی پہنچنے کے بعد انڈیا میں کیا ہوا؟

شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بنگلہ دیش چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو گئی تھیں اور اس وقت بھی وہ انڈیا میں ہی ہیں۔ دہلی کے قریب ہندن ایئربیس سے انھیں دہلی کے مضافات میں غازی آباد میں نیم فوجی گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔

ایک خبر رساں ادارے سمیت متعدد انڈین ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ بنگلہ دیشی فضائیہ کے ایک طیارے نے شیخ حسینہ کو لے کر دہلی کے قریب ہندن ایئربیس سے اڑان بھری تاہم تھوڑی دیر بعد اسی خبر رساں ادارے نے اطلاع دی کہ جہاز نے ٹیک آف تو کیا لیکن اس میں شیخ حسینہ موجود نہیں تھیں اور طیارہ بنگلہ دیشی فوجی افسران کے ساتھ اپنے ملک کی طرف روانہ ہے۔

بی بی سی ان خبروں کی آزادانہ تحقیق نہیں کر سکا۔

ادھر انڈیا میں حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی یا سی سی ایس کی میٹنگ پیر کو آدھی رات کو دہلی میں ہوئی۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اجلاس کی صدارت کی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی وہاں موجود تھے۔ ملاقات میں بنگلہ دیش کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم ملاقات کے بعد کوئی بیان نہیں دیا گیا اور نہ ہی کوئی پریس ریلیز سامنے آئی۔

منگل کی صبح دہلی میں پارلیمنٹ میں ایک آل پارٹی میٹنگ ہوئی۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مختلف پارٹیوں کے ارکان پارلیمان کے سامنے صورتحال کی تفصیلات بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت صحیح وقت پر درست قدم اٹھائے گی۔

اس میٹنگ میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ، پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور تمام پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ موجود تھے۔

اس ملاقات میں انڈین ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت نے شیخ حسینہ سے ابتدائی بات چیت کی۔ انھوں نے یہ کہا کہ انڈیا انھیں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے مزید وقت دینا چاہتا ہے۔

اس میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں سوال اٹھایا کہ انڈیا بنگلہ دیش کے لیے کیا طویل مدتی اور قلیل مدتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے؟

حکومت نے جواب میں کہا کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

راہل گاندھی اس دوران یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات میں کسی ’غیر ملکی طاقت کا ہاتھ‘ تھا؟ حکومت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام پہلوؤں کو دیکھا جا رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے کانگریس لیڈر کارتی چدمبرم کے حوالے سے کہا کہ کانگریس قومی سلامتی اور قومی مفاد پر پوری طرح حکومت کے ساتھ ہے۔

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی اگلی منزل کہاں ہے، یہ تاحال واضح نہیں۔

پہلے یہ افواہ تھی کہ وہ انڈیا سے لندن جا رہی ہیں لیکن بی بی سی بنگلہ کے دہلی کے نامہ نگار شوبھا جیوتی گھوش کی رپورٹ کے مطابق ان کی اگلی منزل ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اس لیے شیخ حسینہ فی الحال انڈیا میں ہی رہیں گی۔

لیکن انھیں کب تک انڈیا میں رہنا پڑے گا یہ واضح نہیں۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ پیر کو بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بہت مختصر نوٹس پر انڈیا آنے کی درخواست کی۔ وزیر خارجہ نے پہلی بار یہ بتایا کہ استعفیٰ دینے کے بعد شیخ حسینہ گذشتہ روز انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی آئیں۔

وزیر خارجہ نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ اب اگلا مرحلہ کون سا ہوگا اور یہ کہ شیخ حسینہ واجد کتنے وقت تک انڈیا میں رہی رکی رہیں گی۔ انھوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ وقتی طور پر انڈیا میں ہی ہیں۔

حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ - BBC News اردو (2024)

References

Top Articles
Latest Posts
Article information

Author: Mr. See Jast

Last Updated:

Views: 6535

Rating: 4.4 / 5 (55 voted)

Reviews: 94% of readers found this page helpful

Author information

Name: Mr. See Jast

Birthday: 1999-07-30

Address: 8409 Megan Mountain, New Mathew, MT 44997-8193

Phone: +5023589614038

Job: Chief Executive

Hobby: Leather crafting, Flag Football, Candle making, Flying, Poi, Gunsmithing, Swimming

Introduction: My name is Mr. See Jast, I am a open, jolly, gorgeous, courageous, inexpensive, friendly, homely person who loves writing and wants to share my knowledge and understanding with you.